دانا، جال اور شکاری (زارا نور بلوچ، لالہ موسیٰ)
ایک دن ایک شکاری پرندوں کے شکار کےلئے صحرا میں گیا وہ ادھر ادھر پھرتا رہا اور ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ کئی پرندے ہر طرف اڑرہے تھے اس نے اپنا جال نکالا اور اس کی رسی ایک درخت سے باندھ دی اور جال کے نیچے گندم کے دانے بچھا دئیے۔
شکاری نے جال کی ایک رسی اپنے ہاتھ میں پکڑرکھی تھی اور کچھ فاصلہ پر بیٹھ گیا تھا۔
اس نے کچھ گھاس اور سبزہ جمع کیا جس سے اپنا سر اور جسم ڈھانک لیا تاکہ پرندوں کو کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔
دوسری طرف ایک نہایت ہی ہوشیار پرندہ کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور درختوں و سبزہ کا نظارہ کرتا ہوا قریب آگیا اور ایک درخت پر بیٹھ گیا اور کچھ دیر کے بعد شکاری کے قریب زمین پر بیٹھ گیا لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہاں کوئی شخص موجود ہے اور جونہی سبزہ پوش شکاری کے سامنے پہنچا تو اسے پہچان لیا اور اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر پوچھنے لگا اے سبزہ پوش تم کون ہو اور سبزہ میں چھپ کر کیا کررہے ہو؟شکاری نے کہا اے پیارے پرندے! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور اپنا کام کرو‘ میں عابد اور زاہد شخص ہوں میں نے دنیا سے کنارہ کرلیا ہے اس لیے یہاں عبادت اور ریاضت میں مشغول ہوں۔
پرندے نے کہا یہ تو میں نئی بات سن رہا ہوں‘ جنگل میں سبزہ سے بدن ڈھانک لینا اور عبادت کرنے کا کیا مقصد ہے؟
میرے خیال میں ترک دنیا اور ریاضت کوئی اچھا کام نہیں ہے عبادت کیلئے گھاس میں چھپنا اور جنگل میں بیٹھنا ضروری نہیں ہوتا تمہیں چاہیے تھا کہ جس شہر یا گاوں میں رہتے ہو وہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ایسے کام کرو جس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچے۔ معلوم نہیں یہاں کس نظرئیے سے بیٹھے ہو اور گھاس میں چھپ کر کیا کررہے ہو؟ شائد تو نے سنا نہیں
خلق خدمت ہی عبادت ہے
شکاری نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بڑے سادہ دل ہو اور لوگوں کو نہیں پہچانتے دنیا دار بہت برے ہیں اور کسی کو آرام و سکون سے نہیں رہنے دیتے‘ وہ جھوٹ بولتے ہیں‘ دھوکہ دیتے ہیں‘ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور دنیا کا مال جمع کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ میرا دل بڑا نرم اور نازک ہے اس لیے ان چیزوں کو دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ میں نے طویل عرصہ تک لوگوں کی بھلائی کیلئے کام کیے ہیں۔ اب بڑھاپے میں چاہتا ہوں کہ علیحدگی اختیار کروں اور آخرت کی فکر کروں میری خوراک کیلئے جنگل کا گھاس اور میری لباس کیلئے درختوں کے پتے کافی ہیں۔ اب مجھے دنیا اور دنیاداری کی کوئی فکر نہیں ہے۔
پرندے نے کہا یہ تو درست ہے لیکن تم صحرائی جانور نہیں ہو‘ انسان جب تک زندہ ہے اسے دوسروں سے مل جل کر رہنا چاہیے اگر دوسرے برے ہیں تو تمہیں اچھا بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ بھی تمہیں دیکھ کر نیکیاں اپنائیں۔ اگر سب لوگ تمہاری طرح گوشہ نشین بن جائیں تو دنیا کا کام ادھورا رہ جائے گا۔ اچھا کام وہی ہوتا ہے جو سب لوگ کریں۔
تمہارے کام میں نہ تو خوبی ہے اور نہ ہی عبادت ہے سب پیغمبر‘ امام‘ دانشمند اور نیک افراد لوگوں کے ہمراہ زندگی بسرکرتے رہے ہیں اور ان کی بھلائی کے کام کرتے رہے ہیں کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کوئی فرد جنگل میں چلاجائے اور گھاس میں چھپ کر صرف اپنی فکر میں لگا رہے؟
شکاری نے کہا اے پرندے! میں چاہتا ہوں کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو‘ میں لوگوں کی برائیوں سے تنگ ہوکر یہاں آگیا ہوں اب مجھے اپنے ہمسائے کی موت سے عبرت ہوئی ہے اورمیں کسی لمحہ موت سے غافل نہیں رہتا اس لیے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے تاکہ علیحدگی میں یاد الٰہی میں لگا رہوں۔ میری درخواست ہے کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور اپنا کام کرو اور میرے کام میں رکاوٹ نہ بنو۔
پرندے نے کہا بہت بہتر! اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اڑنا چاہا کہ اچانک اسے گندم کے دانے نظر آئے اس لیے کہنے لگا اس سبزہ میں تو ایک دانہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب اتنی مقدار میں گندم کس لیے بکھری پڑی ہے۔ اس نے چاہا کہ آگے بڑھے اور خوب جی بھر کر کھائے لیکن ابھی تک اسے شکاری کی باتیں یاد آرہی تھیں جس نے کہا تھا اللہ‘ آخرت‘ عبادت‘ موت؟ وہ ڈر رہا تھا کہ ممکن ہے سبزہ پوش اعتراض کرے؟ اس لیے اس کی طرف لوٹا اور پوچھنے لگا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گندم کے دانے تمہارے ہیں؟
شکاری نے کہا نہیں میری جان! یہ دانے میرے نہیں ہیں میرے لیے دنیا کا کوئی مال نہیں ہے‘ میں نے یہ گندم کیا کرنی ہے لیکن جہاں تک مجھے علم ہے یہ دو یتیم بچوں کا مال ہے جو ابھی آکر لے جائیں گے۔ تجھے چاہیے کہ اس سبزے سے دانے تلاش کرو لیکن یتیموں کا مال تم پر حرام ہے۔ ہاں! اگر تم اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھتے ہو اور بھوک سے مرنے کے قریب ہو تو انہیں کھالو؟ لیکن میری کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔ پرندے کے منہ میں پانی بھر آیا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ بغیر کھائے پئے چلا جائے اس لیے کہنے لگا۔ میں زیادہ مستحق ہوں بلکہ ممکن ہے کہ بھوک سے جان دیدوں اس لیے خیال کرتا ہوں کہ جو شخص میری طرح بھوکا ہو اگر اسے مردار گوشت بھی مل جائے تو اس کیلئے حلال ہے۔ شکاری نے کہا مجھے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار ہے۔ تجھے اپنے حالات خود ہی اچھی طرح معلوم ہیں اگر مستحق نہیں ہو تو گنہگار ہوگے ورنہ کوئی شخص تمہارا راستہ نہیں روک سکتا۔
پرندے نے کچھ سوچا اور جواب دیا اب جبکہ معاملہ ایسا ہے میں صرف چند دانے کھالیتا ہوں یہ خوراک میرے لیے حلال ہے اور جس کا مال ہے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
پرندے نے اتنا کہا اور آگے بڑھ کر گندم کھانے میں مشغول ہوگیا جب ہوش سنبھالا تو اسے رہائی کی کوئی صورت دکھائی نہ دی بلکہ اب تو بخوبی سمجھ گیا تھا کہ شکاری کی تمام باتیں اسے فریب دینے کیلئے تھیں.... شکاری بھی اپنے گھاس کے لباس سے نکلا اور دوڑتا ہوا آگیا تاکہ پرندے کو پکڑے۔
پرندے نے نہایت مسرت سے کہا مجھے معلوم ہے کہ میں نے کیا کیا ہے یہ اس شخص کی سزا ہے جو جھوٹے زاہد‘ ریاکار اور تارک دنیا دھوکہ باز کے فریب میں آجاتا ہے۔
شکاری نے کہا ہاں! اب تم گندم کھاو لیکن میں تجھے کھاونگا اس لیے کہ مجھے اپنی عبادت اور ریاضت کی مزدوری مل گئی ہے لیکن یاد رکھو کہ تمہاری لالچ نے تمہیں دھوکہ دیا ہے بلکہ جو شخص بھی جال میں پھنستا ہے اپنی لالچ ہی سے گرفتارہوتا ہے اگر میں چھینک نہ مارتا اور مجھے نہ دیکھتے تو تم پھر بھی آگے بڑھ کر گندم کے دانے کھالیتے اور گرفتار ہوجاتے۔ تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جہاں دانے ہوتے ہیں وہاں جال بھی ہوتا ہے۔
بچوں کیا سبق ملاکہ لالچ نہیں کرنا’ بس بڑے جو بولیں کہ غلط کام غلط ہے تو غلط ہے۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے وہ جانتے ہیں ان کے پاس زندگی کا تجربہ ہے اور وہ ان راہوں سے گزر چکے ہیں جن سے آپ گزر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ ان کی نصیحت کو غور سے سنو اور اس پر عمل کرو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں